آج 15 اپریل کو ٹائیٹینک کی برسی ہے ۔۔۔!!!
1912 تک ٹائی ٹینک انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی سب سے بڑی مشین تھی جو حرکت کرسکتی تھی ۔
"The biggest manmade moving object"
یہ ایک مکمل تعیش گاہ تھی جس پر جمنازیم سوئمنگ پول ترکش باتھ سکواش کورٹ حتیٰ کہ اپنا پرنٹنگ پریس تک موجود تھا جہاں ٹائی ٹینک کا اپنا ایک روزنامہ شائع ہوتا تھا 20000 بئیر کی بوتلیں، 1500 وائن کی بوتلیں اور 8000 سگار موجود تھے ۔ جہاز پر روزانہ 600 ٹن کوئلہ جلایا جاتا تھا ۔ بھٹی میں کوئلہ ڈالنے کیلیے 176 افراد مامور تھے اور روزانہ 100 ٹن راکھ سمندر میں بہائی جاتی تھی ۔جب ٹائی ٹینک تیار ہوا تو اس کو کھینچ کر ساحل پر لانے کیلیے 20 طاقتور ترین گھوڑے لائے گئے اور 22 ٹن صابن اور گوشت کی چکنائی بچھائی گئی جس پر اسے گھسیٹا گیا ۔
یہ تھا ٹائی ٹینک ۔۔۔!!!
انسانی عظمت کا استعارہ ۔۔۔!!!
آدم کےبیٹے کی ذہانت، مہارت اورمحنت کا شاہکار ۔۔ !!!
دولت اور ٹیکنالوجی کی علامت ۔۔۔ !!!
عروج کا نشان ۔۔۔ ترقی کی معراج ۔۔۔ !!!
ٹائی ٹینک کےبنانے والے حضرت انسان اپنی اس تخلیق پر نازاں، اور اس کی کی کامیابی کے بارے میں اس قدر پر اعتماد تھے کہ جب اس کی رونمائی کی تقریب کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ اتنے بڑے جہاز پر جس میں دنیا جہان کے لوازمات موجود ہیں لیکن لائف بوٹس بہت کم رکھی گئی ہیں اگر حادثہ ہوا تو مسافر کیا کریں گے ؟
واضح رہے کہ ٹائی ٹینک پر لائف بوٹس صرف 16 رکھی گئی تھیں جن پر صرف 1178 افراد سما سکتے تھے جبکہ مسافروں کی تعداد 2224 تھی ۔
اس سوال پر ایک آفیسر نے رعونت اور حقارت سے جواب دیا
ٹائی ٹینک کو خدا بھی نہیں ڈبوسکتا ۔۔۔ !!!
یہ انسان کی طرف سے اللہ کی کبریائی کو چیلنج تھا اور یہ چیلنج اس طرح منہ پر مارا گیا کہ اپنی روانگی کے چھٹے ہی دن ٹائی ٹینک ایک عظیم الجثہ برف کے تودے سے جاٹکرایا اور انسانی طاقت ،عظمت ، ترقی اور عروج کا یہ جنازہ اپنے سارے کرو فر اور سارے تام جھام کے ساتھ صرف 4 گھنٹے میں دیکھتے ہی دیکھتے سمندر برد ہوگیا ۔
بعد میں سینیٹ کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو بیانات سے انکشاف ہوا کہ جہاز پر دوربین دستیاب نہ تھی کپتان کی دوربین ایک لاکر میں مقفل تھی جس کی چابی بدقسمتی سے ساحل پر ہی رہ گئی تھی اور دوربین نہ ہونےکی وجہ سے سامنے موجود برفانی تودہ نظر نہ آیا اور جب تک وہ تودہ نظر آتا دیر ہوچکی تھی اور جہاز کو موڑنا ممکن نہ تھا ۔
اللہ اکبر ۔۔۔ !!!
بے شک جب اللہ کا جلال حرکت میں آتا ہے تو وہ ذرائع کیلیے مجبور نہیں ہوتا وہ چاہے تو ابابیلوں کے ہاتھوں ابرہہ کی اس کے ہاتھیوں سمیت درگت بنوا دیتا ہے مچھر سے نمرود کو عبرت کا نشان بنا دیتا ہے
آج 15 اپریل 2020 میں جب 3 ارب انسان اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ان کیلیے 15 اپریل 1912 کو تباہ ہونے والے ٹائی ٹینک کی تباہی میں بہت سارے سبق موجود ہیں ۔
ہیں کوئی جو سبق حاصل کرے ؟
اول و آخر فناء
باطن و ظاہر فناء
نقش کہن ہو کہ نو
منزل آخر فناء
طارق رحمان
No comments:
Post a Comment