کورونا وائرس لاک ڈاؤن روبینہ کی موت کے بعد گاؤں میں راشن آ گیا
جھڈو شہر سے پانچ کلومیٹر دور نبی سر موڑ پر واقع پندرہ، بیس گھروں پر مشتمل بستی میں آج کل بڑی گاڑیوں اور افسران کی آمد جاری ہے جو اپنے ساتھ راشن، دودھ اور دیگر امدادی سامان لا رہے ہیں لیکن یہ صورتحال چند روز پہلے تک ایسی نہ تھی اور یہاں بچوں کی رونے کی آوازیں اور بھوک کے ڈیرے تھے۔
جھڈو، کراچی سے تقریبا 300 کلومیٹر دور میرپورخاص مٹھی روڈ پر واقع ہے، اس کی قریبی بستی میں سنیچر کی شب 45 سالہ روبینہ بروہی انتقال کر گئی تھیں جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں۔
ان کے شوہر اللہ بخش بروہی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی بیوی بھوک کی وجہ سے فوت ہوئیں۔
اللہ بخش بروہی لکڑی سے بچوں کے کھلونے بناتے ہیں جن کی فروخت سے ان کی سو سے دو سو رپے دیہاڑی بن جاتی تھی لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا یہ کام بند ہو گیا تھا۔
اللہ بخش بروہی پانچ سال سے پندرہ سال تک عمر کے پانچ بچوں کے والد ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گذشتہ ایک ہفتے سے کھانے کے لیے کچھ دستیاب نہ تھا
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس بکری اور بھیڑ کیا ایک مرغی تک نہیں جو فروخت کرتا، جو کچھ پیسے تھے وہ لاک ڈاؤن کے دوران ختم ہو گئے بعد میں روزانہ تیس یا چالیس کا آٹا خریدتے تھے اور روکھی روٹی بنا کر پانی سے کھا لیتے تھے۔
’ایک کلو آٹے میں دو وقت کی سب کے حصے میں بمشکل دو، دو روٹی آتی تھی، بچے بھوک کی شکایت زیادہ کرتے تھے تو روبینہ کبھی آدھی روٹی کھا لیتی تو کنھی خالی پیٹ سو جاتی تھی۔
اللہ بخش کے مطابق ’جس روز روبینہ کا انتقال ہوا اس روز بھی شام کو پندرہ روپے کے بسکٹ منگوائے تھے جو سب نے کھائے اور سو گئے۔ تقریباً رات دس بجے روبینہ کی طبعیت خراب ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس بکری اور بھیڑ کیا ایک مرغی تک نہیں جو فروخت کرتا، جو کچھ پیسے تھے وہ لاک ڈاؤن کے دوران ختم ہو گئے بعد میں روزانہ تیس یا چالیس کا آٹا خریدتے تھے اور روکھی روٹی بنا کر پانی سے کھا لیتے تھے۔
’ایک کلو آٹے میں دو وقت کی سب کے حصے میں بمشکل دو، دو روٹی آتی تھی، بچے بھوک کی شکایت زیادہ کرتے تھے تو روبینہ کبھی آدھی روٹی کھا لیتی تو کنھی خالی پیٹ سو جاتی تھی۔
اللہ بخش کے مطابق ’جس روز روبینہ کا انتقال ہوا اس روز بھی شام کو پندرہ روپے کے بسکٹ منگوائے تھے جو سب نے کھائے اور سو گئے۔ تقریباً رات دس بجے روبینہ کی طبعیت خراب ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا
خاتون کی موت ہیموگلوبن کی کمی کی وجہ سے ہوئی۔ ان کے مطابق وہ ایک ڈاکٹر کو ساتھ لے گئے تھے جسے روبینہ کے شوہر نے بتایا کہ انھیں چکر آتے تھے اور وہ کمزور تھیں۔
پاکستان پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور امراضِ زچہ و بچہ کے ماہر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ خوراک کی کمی سے موت ہو سکتی ہے۔
ان کے مطابق ہیموگلوبن کی کمی سے حاملہ خواتین کی موت کے امکانات ہوتے ہیں لیکن اگر خوراک نہیں مل رہی اور مطلوبہ خوراک یعنی فولاد وغیرہ دستیاب نہیں تو موت کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔
نبی سر موڑ سے پانچ کلومیٹر دور جھڈو میں دیہی صحت مرکز واقع ہے لیکن اسٹنٹ کمشنر آصف خاصخیلی کا کہنا ہے کہ حاملہ خاتون کو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جایا گیا تھا تاکہ اس کی بیماری کا علم ہوتا
No comments:
Post a Comment