Tuesday, 21 April 2020

شارجہ میں سڑکوں اور پارکوں میں رہنے پر مجبور پاکستانی ماں بیٹیوں کو بالآخر چھت نصیب ہوگئی

شارجہ میں سڑکوں اور پارکوں میں رہنے پر مجبور پاکستانی ماں بیٹیوں کو بالآخر چھت نصیب ہوگئ

عظمی فاروق ، اس کی بزرگ والدہ خالدہ فاروق اور دو چھوٹے بہن بھائی رابعہ اور بلال فاروق لاک ڈاون کے باعث بے روزگار اور بے گھر ہوگئے تھے، لوگوں کی جانب سے دل کھول کر امداد دیے جانے کے بعد متاثرہ خاندان کرائے کا فلیٹ لینے کے قابل ہوگیا

شارجہ میں سڑکوں اور پارکوں میں رہنے پر مجبور پاکستانی ماں بیٹیوں کو بالآخر چھت نصیب ہوگئی، 28 سالہ عظمی فاروق ، اس کی بزرگ والدہ خالدہ فاروق اور دو چھوٹے بہن بھائی رابعہ اور بلال فاروق لاک ڈاون کے باعث بے روزگار اور بے گھر ہوگئے تھے، لوگوں کی جانب سے دل کھول کر امداد دیے جانے کے بعد متاثرہ خاندان کرائے کا فلیٹ لینے کے قابل ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں لگائے گئے لاک ڈاون کے باعث شارجہ میں مقیم ایک پاکستانی خاندان ایسا بھی ہے جو خود کو کورونا سے بچانے کے معاملے میں بالکل بے بس ہو کر بے گھر ہوگیا تھا۔ چار افراد کے اس پاکستانی خاندان میں 28 سالہ عظمی فاروق ، اس کی بزرگ والدہ خالدہ فاروق اور دو چھوٹے بہن بھائی رابعہ اور بلال فاروق شامل ہیں۔


یہ بے گھر افراد گزشتہ ایک ماہ سے پارک کے بینچز، مساجد حتیٰ کہ ہسپتالوں کے کوریڈورز میں وقت گزاری پر مجبور ہو گئے تھے۔

متاثرہ خاندان کی 28 سالہ عظمی فاروق ے بتایا ”ہمیں کپڑے بدلے ہوئے بھی کئی روز ہو چکے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس نہانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے کئی روز سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ مگر ہماری سب سے بڑی تکلیف بزرگ والدہ سے متعلق ہے۔ جو اتنی کمزور ہیں کہ زیادہ دیر تک کھڑی رہ سکتی ہیں اور نہ بیٹھ سکتی ہیں۔ وہ پہلے ہی دل کی مریضہ ہیں اُوپر سے ان بھیانک حالات میں ان کی صحت اور بگڑ رہی ہے۔
جبکہ کورونا کے خدشے نے انہیں فکر مندی کے مرض میں لاحق کر دیا ہے۔ ان کی قوت مدافعت بہت کمزور ہے۔“ ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ نے بتایا کہ وہ شارجہ کے علاقے رولا میں ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھے، تاہم خراب معاشی حالات کے باعث انہیں وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ جس کے بعد عظمیٰ کی ایک سہیلی نے انہیں دو ہفتوں تک اپنے پاس ٹھہرائے رکھا۔
مگر جب کورونا کے مریضوں کی گنتی میں اضافہ ہونے لگا تو اس کی سہیلی نے کہہ دیا کہ وہ اپنا ٹھکانہ کہیں اور کر لے کیونکہ اس کا اپارٹمنٹ بہت چھوٹا تھا جس میں پہلے ہی بہت سے لوگ مقیم تھے۔ اب بتایا گیا ہے کہ اس خاندان کی کہانی سامنے آنے کے بعد امارات میں مقیم لوگوں نے دل کھول کر انہیں امداد دی، جس کے بعد اب یہ ایک فلیٹ کرائے پر حاصل کرنے میں کامیاب رہے، اور اب وہاں مقیم ہیں۔ متاثرہ خاندان کے افراد نے مدد کرنے والے تمام افراد کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔۔ 

کورونا وائرس لاک ڈاؤن روبینہ کی موت کے بعد گاؤں میں راشن آ گیا..

کورونا وائرس لاک ڈاؤن روبینہ کی موت کے بعد گاؤں میں راشن آ گیا

جھڈو شہر سے پانچ کلومیٹر دور نبی سر موڑ پر واقع پندرہ، بیس گھروں پر مشتمل بستی میں آج کل بڑی گاڑیوں اور افسران کی آمد جاری ہے جو اپنے ساتھ راشن، دودھ اور دیگر امدادی سامان لا رہے ہیں لیکن یہ صورتحال چند روز پہلے تک ایسی نہ تھی اور یہاں بچوں کی رونے کی آوازیں اور بھوک کے ڈیرے تھے۔

جھڈو، کراچی سے تقریبا 300 کلومیٹر دور میرپورخاص مٹھی روڈ پر واقع ہے، اس کی قریبی بستی میں سنیچر کی شب 45 سالہ روبینہ بروہی انتقال کر گئی تھیں جو آٹھ ماہ کی حاملہ تھیں۔

ان کے شوہر اللہ بخش بروہی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی بیوی بھوک کی وجہ سے فوت ہوئیں۔

اللہ بخش بروہی لکڑی سے بچوں کے کھلونے بناتے ہیں جن کی فروخت سے ان کی سو سے دو سو رپے دیہاڑی بن جاتی تھی لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا یہ کام بند ہو گیا تھا۔

اللہ بخش بروہی پانچ سال سے پندرہ سال تک عمر کے پانچ بچوں کے والد ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گذشتہ ایک ہفتے سے کھانے کے لیے کچھ دستیاب نہ تھا
 ان کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس بکری اور بھیڑ کیا ایک مرغی تک نہیں جو فروخت کرتا، جو کچھ پیسے تھے وہ لاک ڈاؤن کے دوران ختم ہو گئے بعد میں روزانہ تیس یا چالیس کا آٹا خریدتے تھے اور روکھی روٹی بنا کر پانی سے کھا لیتے تھے۔

’ایک کلو آٹے میں دو وقت کی سب کے حصے میں بمشکل دو، دو روٹی آتی تھی، بچے بھوک کی شکایت زیادہ کرتے تھے تو روبینہ کبھی آدھی روٹی کھا لیتی تو کنھی خالی پیٹ سو جاتی تھی۔

اللہ بخش کے مطابق ’جس روز روبینہ کا انتقال ہوا اس روز بھی شام کو پندرہ روپے کے بسکٹ منگوائے تھے جو سب نے کھائے اور سو گئے۔ تقریباً رات دس بجے روبینہ کی طبعیت خراب ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس بکری اور بھیڑ کیا ایک مرغی تک نہیں جو فروخت کرتا، جو کچھ پیسے تھے وہ لاک ڈاؤن کے دوران ختم ہو گئے بعد میں روزانہ تیس یا چالیس کا آٹا خریدتے تھے اور روکھی روٹی بنا کر پانی سے کھا لیتے تھے۔

’ایک کلو آٹے میں دو وقت کی سب کے حصے میں بمشکل دو، دو روٹی آتی تھی، بچے بھوک کی شکایت زیادہ کرتے تھے تو روبینہ کبھی آدھی روٹی کھا لیتی تو کنھی خالی پیٹ سو جاتی تھی۔

اللہ بخش کے مطابق ’جس روز روبینہ کا انتقال ہوا اس روز بھی شام کو پندرہ روپے کے بسکٹ منگوائے تھے جو سب نے کھائے اور سو گئے۔ تقریباً رات دس بجے روبینہ کی طبعیت خراب ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا
خاتون کی موت ہیموگلوبن کی کمی کی وجہ سے ہوئی۔ ان کے مطابق وہ ایک ڈاکٹر کو ساتھ لے گئے تھے جسے روبینہ کے شوہر نے بتایا کہ انھیں چکر آتے تھے اور وہ کمزور تھیں۔

پاکستان پیرا میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور امراضِ زچہ و بچہ کے ماہر ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ خوراک کی کمی سے موت ہو سکتی ہے۔

ان کے مطابق ہیموگلوبن کی کمی سے حاملہ خواتین کی موت کے امکانات ہوتے ہیں لیکن اگر خوراک نہیں مل رہی اور مطلوبہ خوراک یعنی فولاد وغیرہ دستیاب نہیں تو موت کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

نبی سر موڑ سے پانچ کلومیٹر دور جھڈو میں دیہی صحت مرکز واقع ہے لیکن اسٹنٹ کمشنر آصف خاصخیلی کا کہنا ہے کہ حاملہ خاتون کو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جایا گیا تھا تاکہ اس کی بیماری کا علم ہوتا

کرپٹو کرنسی: ہیکر نے چین میں ڈھائی کروڑ ڈالر چوری کیے پھر خود ہی واپس کر دیے

کرپٹو کرنسی: ہیکر نے چین میں ڈھائی کروڑ ڈالر چوری کیے، پھر خود ہی واپس کر دیے۔۔۔

ایک پراسرار ہیکر نے پہلے کرپٹو کرنسی کی مد میں دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر چوری کیے اور صرف دو روز بعد ہی انھیں خود ہی واپس بھی کر دیا۔

چین میں قائم مرکز ڈی فورس سے دو روز قبل کرپٹو کرنسی، الیکٹرانک سطح پرادائیگی کے لیے استعمال ہونے والی ڈیجیٹل کرنسی، کی مد میں ڈھائی کروڑ ڈالر مالیت کی رقم چوری ہوئی تھی۔

ہیکر نے سب سے زیادہ ایک کروڑ ڈالر مالیت کی ایتھیریم کرنسی چرائی۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ ڈالر کے دوسرے کوائنز بھی چوری کیے گئے تھے۔ ہیکر نے 40 لاکھ ڈالر کے ایسے کوائنز بھی چوری کیے جو امریکی ڈالر سے منسلک ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’پاکستان میں کریپٹو کرنسی قانونی نہیں، اسے مشکوک مانیں‘

کرپٹو کوئین: وہ خاتون جس نے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

شانگلہ میں کرپٹوکرنسی فارم کہاں سے آیا

بٹ کوائن کا سحر ٹوٹ رہا ہے؟

اس نے دو روز بعد مختلف کرپٹو کوائنز کی شکل میں تقریباً اتنی ہی مالیت کی ڈیجیٹل رقم واپس ادا کر دی ہے

ڈی فورس کرپٹو کرنسی کا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں ڈیجیٹل رقوم کا لین دین ہوتا ہے

ڈی فورس کے بانی منڈاؤ ینگ نے ہیکرز کے حملوں کے بعد ایک پیغام میں کہا تھا کہ ہیکر نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ ان سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں

ڈی فورس کے بانی نے کہا تھا کہ ہیکرز نے نہ صرف ان کے صارفین کو نقصان پہنچایا بلکہ انھیں ذاتی طور پر کافی نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے کہا ’اس حملے میں میرے اثاثے بھی چوری ہوئے ہیں۔۔

منڈاؤینگ نے اس حوالے سے مزید معلومات دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بی بی سی نے ڈی فورس سے مزید معلومات کے لیے رابطہ کیا ہے۔۔۔
س حملے کے حوالے سے سکیورٹی کمپنی پیک شیلڈ نے ایک بلاگ میں وضاحت کی ہے کہ کیسے ایک ہیکر نے ڈی فورس کے نظام کو دھوکہ دے کر ڈھائی کروڑ ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی چوری کر لی۔

اسے آسان لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہیکر ڈی فورس کے نظام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ کرپٹو کرنسی جمع کروا رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کرپٹو کرنسی چوری کر رہے تھے۔

ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے اور کہاں استعمال ہوتی ہے
ڈیجیٹل کرنسی بنیادی طور پر الیکٹرانک سطح پرادائیگی یا پےمنٹ کا طریقہ کار ہے۔ اس سے آپ خریدای کر سکتے ہیں لیکن اب تک یہ مخصوص مقامات پر ہی خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کے ذریعے آپ ویڈیو گیمز یا سوشل نیٹ ورکس پر ادائیگی کر سکتے ہیں۔ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے اور کہاں استعمال ہوتی ہے

اس وقت دنیا میں لگ بھگ 5000 کرپٹو کرنسیز استعمال ہو رہی ہیں جن میں بِٹ کوائن سرفہرست ہے۔ ایک بٹ کوائن کی قیمت اس وقت 8300 ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ ماضی میں یہ 20 ہزار ڈالر کی حد تک بھی پہنچ چکی ہے۔

کرپٹوکرنسی کی کُل مارکیٹ ایک اندازے کے مطابق 230 بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس کی مارکیٹ 400 بلین ڈالرز سے زیادہ کی تھی۔

کریپٹو کرنسی کا کاروبار دنیا بھر میں ہو رہا ہے جس میں اب تک 5000 سے زیادہ کرنسیز آ چکی ہیں لیکن فی الحال سب سے مقبول بٹ کوائن ہے۔۔

کراچی:ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کی کرونا رپورٹ پاذیٹیو آگی

کراچی:ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کی کرونا رپورٹ پاذیٹیو آگی

کراچی: ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا۔

ذرائع کے مطابق سماجی کارکن فیصل ایدھی اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں جن کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ فیصل ایدھی کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ایسے افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے جن سے انہوں نے حالیہ دنوں میں ملاقات کی ہے۔

ذرائع کے مطابق فیصل ایدھی کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کے کچھ عملے اور فیصل ایدھی کے اہلخانہ کے بھی کورونا ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔

واضح رہےکہ فیصل ایدھی نے گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تھی اور انہیں کورونا ریلیف فنڈ کے لیے چیک پیش کیا تھا 

سعودی عرب میں خاتون سے زیادتی کرنے والے پاکستانی کا سر قلم

سعودی عرب میں خاتون سے زیادتی کرنے والے پاکستانی کا سر قلم


پاکستانی نوجوان محمد عمر نے اپنے دو سعودی ساتھیوں سمیت ایک گھر میں گھُس کر دو خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا
(2020, 21 اپریل )
جدہ(21 اپریل 2020ء ) سعودی مملکت میں دو خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے تین افراد اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ گئے، جن کا گزشتہ روز جدہ میں سر قلم کر دیا گیا۔ ملزمان گھروں میں لُوٹ مار کرنے کے علاوہ خواتین کی آبرو ریزی کرنے جیسے گھناؤنے جرائم میں بھی ملوث تھے۔ اُردو نیوز کے مطابق پاکستانی شہری محمد عمر ولد محمد لئیق اور اس کے دو سعودی ساتھیوں ھتان بن سراج بن سلطان الحربی اور سلطان بن سراج بن سلطان الحربی کو عدالت کی جانب سے ڈکیتی کی وارداتیں کرنے اور ایک گھر میں گھُس کر دو خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے جُرم میں موت کی سزا سُنائی گئی تھی، گزشتہ روز اس سزا پر عمل کرتے ہوئے ان تینوں کا سر قلم کر دیا گیا۔
وزارت داخلہ نے بتایا کہ پاکستانی شہری محمد عمر اور اس کے دونوں سعودی ساتھی ھتان اور سلطان سیکیورٹی اہلکاروں کے بھیس میں ایک گھر میں داخل ہوئے، اس دوران انہوں نے شراب بھی پی رکھی تھی۔


تینوں افراد نے گھر میں گھُستے ہی ایک خاتون کوچاقو کی نوک پر یرغمال بنا لیا۔ سعودی نوجوان ھتان نے اس خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔ اسی دوران گھر میں موجود ایک اور خاتون نے ایک کمرے کا دروازہ لاک کر کے خود کو بچانے کی کوشش کی، مگر عمر اور سلطان کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر گھُس گئے اور اس خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

دونوں خواتین نے اپنی عزت بچانے کے لیے ان کی بہت منت سماجت کی، مگر ان درندوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ سفاک ملزمان نے یہ واردات انجام دینے کے بعد بڑے سکون سے گھر میں موجود قیمتی سامان اور نقدی لُوٹی اور پھر جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے تھے۔ جنسی زیادتی کی شکار مظلوم خواتین نے فوری طور پر پولیس کو اس لرزہ خیز واردات کے بارے میں آگاہ کر دیا۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے انہیں چند روز کے اندر ہی گرفتار کر لیا تھا۔
ملزمان کو فوجداری عدالت میں پیش کیا گیا۔ملزمان نے اپنے گھناؤنے جرائم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، تاہم استغاثہ کی جانب سے ان کے خلاف ٹھوس شواہد اور گواہیاں پیش کی گئیں۔ جس کے بعد عدالت نے تینوں ملزمان کو جنسی زیادتی، ڈکیتی اور خود کو سیکیورٹی اہلکار کرنے کے جرائم کے تحت ان کے سر قلم کرنے کی سزا سُنائی تھی۔مجرموں نے اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاہم ان تینوں کی سزا برقرار رکھی گئی۔ جس کے ایوان شاہی سے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا فرمان جاری کردیا گیا تھا۔ گزشتہ روز تینوں مجرموں کو ان کے بھیانک جرم پر سر قلم کر کے انجام تک پہنچا یا گیا۔دونوں سعودی مجرم ھتان اور سلطان سگے بھائی تھے۔

Monday, 20 April 2020

کیا کرونا کی وجہ سے تھوک سے گیند چمکانے پر پابندی لگ سکتی

کرونا کی وبا نے زندگی کے کئی پہلوؤں کو بدل کے رکھ دیا ہے اور اب کرکٹ کا سب سے بنیادی حصہ بھی نظروں میں آ چکا ہے، یعنی گیند کو چمکانا۔

منگل 21 اپریل 11:30 2020 
کرونا (کورونا) کی وبا نے زندگی کے کئی پہلوؤں کو بدل کے رکھ دیا ہے اور اب کرکٹ کا سب سے بنیادی حصہ بھی نظروں میں آ چکا ہے، یعنی گیند کو چمکانا۔
دنیا جراثیم کے حوالے سے جتنی محتاط اب ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔ آسٹریلوی برق رفتار بولر اور سسیکس کے ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی نے سوال اٹھایا ہے کہ کھیل بحال ہونے کے بعد کیا کرکٹ کی گیند کو تھوک اور پسینے سے چمکانے کی پرانی روایت جاری رہ سکے گی؟
گلیسپی انگلش کاؤنٹی سیزن کی معطلی کے بعد واپس آسٹریلیا آ چکے ہیں۔ اتوار کو گلیسپی نے اس بارے میں سوال اٹھایا، جو اس وبا سے پہلے بھی کئی بار اٹھایا جا چکا ہے کہ بولر اور فیلڈرز جو کہ گیند کو اپنے تھوک سے چمکاتے ہیں۔ جب اس بارے میں سوچا جائے تو یہ 'کافی گندا' محسوس ہوتا ہے۔
آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ساتھ ریڈیو انٹرویو میں گلیسپی نے کہا: 'میرے خیال میں یہ کوئی انوکھا سوال نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقی سوال ہے اور اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ میرے خیال میں کسی چیز کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہر اوور کے اختتام پر امپائر کھلاڑیوں کو اپنے سامنے گیند چمکانے کی اجازت دیں
انہوں نے مزید کہا: 'مجھے نہیں پتہ کہ یہ صرف پسینہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کو صرف پسینہ استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے لیکن اس بارے میں بات ضرور ہو گی۔ اگر آپ اس بارے میں سوچیں تو یہ بہت گندا محسوس ہوتا ہے۔'
گذشتہ مہینے ختم ہونے والے آسٹریلین کرکٹ سیزن کے دوران کئی مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز نے تھوک کے استعمال سے گیند چمکانے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس روایت پر پابندی کے سوال پر آسٹریلوی فاسٹ بولر جوش ہیزل وڈ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں گیند کے ساتھ ایسا کرنا 'بہت اہم ہے' اور یہ گیند کی زندگی بڑھا دیتا ہے۔
سوموار کو ایک روزہ کرکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'سفید گیند کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ٹیسٹ میچ میں گیند کو نہ چمکانا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ بولرز وکٹ پر گیند کے دائیں بائیں گھومنے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر آپ 80 اوورز تک گیند کا خیال نہیں رکھتے تو ابتدائی 15 اوورز میں نئی گیند کی چمک ختم ہونے کے بعد بلے بازی کرنی بہت آسان ہو جائے گی....

'چودہ دن مزید' کرونا وائرس پر پہلا پاکستانی ناول

یہ حمزہ حسن شیخ کا ناول ہے جس کے کردار خود بولتے ہیں اور انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ اُسے پڑھا اور محسوس کیا جائے.                                                                                                                       منگل 21 اپریل 2020 9:00


اس ناول میں انسانی لالچ، خود غرضی اور لاپروائی کے موضوع کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ کس طرح جدید
                                          ..دور میں آزاد ہونے کے باوجود تمام انسان کیسے قیدیوں میں تبدیل ہوگئے

 کچھ لوگ لگتے نہیں ہیں مگر وہ اتنے کری ایٹیو ہوتے ہیں کہ تخلیق کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور تخلیق بھی ایسی  کہ بندہ انگشت بدنداں ہوجاتا ہے ۔

ایسے ہی تخلیقی ذہن کے مالک ہمارے ایک دوست حمزہ حسن شیخ ہیں، جن کو ہم بچوں کا لکھاری سمجھتے تھے کیونکہ ہم دونوں نے ساتھ میں ہی چھوٹی عمر میں بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے ہم عمر کھیلوں میں مصروف ہوا کرتے تھے مگر ہم نے ایک نیا روگ پالا تھا، بچوں کے صفحات میں لکھنا اور اپنا نام اخبارات میں دیکھنا۔
یوں یہ سفر جاری رہا۔ ہم دونوں کی ملاقات بھی ابھی تک نہیں ہوئی حمزہ نے ایجوکیشن کا شعبہ چنا، ہم نے صحافت کی، پھر ہم بھی ٹیچنگ میں آگئے ۔ حمزہ نے میری طرح لکھنا نہیں چھوڑا اور لکھتے گئے۔ اتنا لکھا کہ مجھے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مجھے حمزہ پر رشک آرہا ہے کہ حمزہ حسن شیخ نے اپنی ساری بچوں کی کہانیاں، افسانے اور انگلش شاعری کی کتابیں شائع کی ہیں جبکہ اس معاملے میں ہم سست واقع ہوئے ہیں بلکہ زیادہ تر ریکارڈ گما بیٹھے ہیں۔
تو اب جب دنیا کو وبا نے گھیرا تو ملائیشیا میں موجود حمزہ حسن شیخ نے قرنطینہ کے دنوں میں کرونا کے حوالے سے ناول لکھنا شروع کیا۔ ناول لکھنا کوئی آسان کام نہیں مگر داد دیتا ہوں حمزہ حسن کو کہ اس وبا کے دنوں میں اس نے یہ مشکل ٹاسک شروع کیا اور ناول مکمل بھی کردیا ۔
ایک ایسے وقت میں جب اس وبا نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک سب کو ایک صفحے پر لاکھڑا کردیا۔ حمزہ حسن شیخ نے پوری دنیا کے تناظر میں وبا کی پوری تصویر کو ایک پلاٹ میں واضح کرتے ہوئے زندگی کے کردار مختلف پہلوؤں سے دکھائے ہیں 
ناول میں حمزہ حسن شیخ کا سارا زور پلاٹ پر ہے۔ انہوں نے کردار بھی پلاٹ کو مدنظر رکھ کر تخلیق کیے۔ یعنی یہ ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرے کی سچی تصویر ہے، اس کو ہم ناول کی بجائے اگر ناولٹ کہہ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کیونکہ ناولٹ بھی ناول کی طرح کا ہی ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں‌ کہ ناولٹ اور ناول میں‌ صرف اتنا فرق ہے کہ ناول پوری زندگی پر تفصیل سے لکھا جاتا ہے جب کہ ناولٹ ناول کے مقابلے میں بہت مختصر ہوتا ہے۔
وبا کے دنوں میں جب پوری دنیا لاک ڈاؤن کا شکار تھی، حمزہ حسن شیخ نے دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں رہنے والے کرداروں کو آپس میں ایک دوسرے سے رابطے میں رکھا۔ اس ناول کے چار بڑے کردار حیدر، علینور، فیروزہ اور میرس ہیں جو انڈونیشیا، قازقستان، سپین اور ووہان میں مقیم ہیں جبکہ کچھ اور چھوٹے کردار بھارت، ایران، جرمنی، فرانس، اٹلی میں بھی نمودار ہوتے ہیں۔
'Fourteen days more' یعنی '14 دن مزید' کے نام سے اس ناول میں انسانی لالچ، خود غرضی اور لاپروائی کے موضوع کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ کس طرح جدید دور میں آزاد ہونے کے باوجود تمام انسان کیسے قیدیوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
'14 مزید دن' کی کہانی یہی ہے کہ انڈونیشیا میں مقیم حیدر اپنی دوست فیروزہ کو ملنے کے لیے قازقستان جانے کے لیے تیار ہوتا ہے کہ اس کی فلائٹ کینسل ہو جاتی اور کرونا وائرس کی وبا کے پیش نظر انڈونیشیا کو ایک ماہ کے لیے بند کر دیا جاتا ہے۔ وہ فیروزہ کو ساری حقیقت سے آگاہ کرتا ہے تو وہ اس کے نہ آنے پر اداس ہو جاتی ہے۔ فیروزہ کا ایک بھائی علینور چین کے شہر ووہان میں زیر تعلیم ہے جبکہ دوسرا بھائی میرس سپین میں قالینوں کا کاروبار کرتا ہے۔ وہ دونوں بھائیوں کے ساتھ رابطے میں ہوتی ہے اور حیدر کو سب آگاہ کرتی رہتی ہے۔
حیدر کا سارا دن اکیلے فلیٹ میں گزرتا ہے جہاں انسانی آواز تک سنائی نہیں دیتی یہاں تک کہ کسی پرندے کی آواز بھی نہیں۔ اس تنہائی میں صرف فیروزہ کا ساتھ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ حیدر بھی اپنے گھر اور دوستوں کے بارے فکر مند ہوتا ہے۔ پاکستان میں پھیلتی وبا کی خبریں اس تک بھی پہنچتی ہیں تو وہ بلبلا اٹھتا ہے، کہیں پر لوگوں کی بے پروائی تو کہیں پر صحت اور ڈاکٹروں کے مسائل۔
دوسری جانب ووہان میں حالات کی شدت پر فیروزہ اور اس کے گھر والے اس کے بھائی علینور کو کہتے ہیں کہ وہ فوراً ووہان چھوڑ کر واپس قازقستان پہنچے جہاں حالات ٹھیک ہیں۔ فیروزہ کا دوسرا بھائی میرس بھی علینور کو واپس پہنچنے کا کہتا ہے۔ وہ سپین میں مطمئن ہوتا ہے کہ یورپ اس وبا سے محفوظ ہے۔ علینور کو آخری سرحدی گاؤں تک گاڑی ملتی ہے لیکن پھر سرحد تک 90 کلومیٹر وہ پیدل یا ٹرکوں پر طے کرتا اور جیسے تیسے اپنے ملک پہنچ جاتا ہے لیکن راستے میں ایک مسافر سے وہ وبا کا شکار ہو جاتا ہے....
ووہان سے ایک جہاز سپین جاتا ہے اور وہاں اور باقی یورپ میں وبا پھیل جاتی ہے۔ میرس کو جب تک پتہ چلتا ہے تو سارے ایئرپورٹ بند ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ قازقستان نہیں پہنچ پاتا۔ فیزورہ علینور کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے لیکن وہ وبا سے بے خبر ہوتی ہے۔ دونوں بہن بھائی اس کا شکار ہوتے ہیں اور ساتھ میں والدین بھی۔ ہسپتال جانے سے پہلے وہ حیدر کو اپنی بیماری کی خبر کرتی ہے اور پورے گھرانے کو ہسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اس سے ایک دن پہلے میرس بھی اس کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کا پورا خاندان بھی وبا کی زد میں آ جاتا ہے۔ ان کا انٹرنیٹ بند ہوتا ہے اس لیے وہ گھر خبر نہیں کر پاتے۔ حیدر فیروزہ کی بیماری کا سن کر بہت بےچین ہوتا ہے لیکن فیروزہ اس کے کسی میسج کا جواب نہیں دیتی کیونکہ اس کا موبائل گھر رہ جاتا ہے۔ میرس اور اس کا پورا خاندان سپین میں وفات پا جاتا ہے۔ فیروزہ اور علینور قازقستان میں وفات پا جاتے ہیں جبکہ ان کے والدین صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
حیدر کا فیروزہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا کیونکہ چارجنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا موبائل بند ہو کر میز کے نیچے گر چکا ہے اور اس کے والدین بھی اسے نہیں ڈھونڈ پاتے۔ حیدر کی پاگلوں جیسی حالت ہے لیکن وہ ریڈ الرٹ زون میں ہے اور کہیں بھی جانے کا کوئی موقع نہیں کیونکہ فلائٹس بند ہیں اور پھر وہ ایک جزیرے پر مقیم ہے۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلا بار بار فیروزہ کا نمبر ڈائل کر رہا ہے جبکہ باہر اعلان ہو رہا ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کا دورانیہ مزید 14 دن بڑھا دیا گیا ہے۔
یہ حمزہ حسن شیخ کا ناول ہے جس کے کردار خود بولتے ہیں اور انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ اُسے پڑھا اور محسوس کیا جائے۔ کرونا کے دنوں میں پوری دنیا میں لکھا جانے والا یہ پہلا انگریزی ناول ہے جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے، تو ابھی ایمازون پر جاکر کرونا کے حوالے سے پاکستانی نوجوان ناول نگار کا یہ ناول آرڈر کیجیے اور اپنے قرنطینہ کے دن انجوائے کریں....

Sunday, 19 April 2020

آج اقبال مسیح کا جنم دن ہے۔

آج اقبال مسیح کا جنم دن ہے۔ 


اقبال مسیح.. جو 1983 میں لاہور کے قریب ایک گاؤں مُریدکے میں پیدا ہوا...
جس کی ماں ایک قالین بنانے والے کارخانہ میں ملازمہ تھی...جب اقبال چار سال کا ہوا تو فیکٹری کے مالک نے زبردستی اُسے ماں کی جگہ کام پہ لگا دیا... کیونکہ اقبال کی ماں نے کسی دور میں چھ سو روپے قرض لیے تھے اور جو وہ بیماری کے باعث ادا نہ کر پائی تھی تو اُسے اُن چھ سو روپوں کے عوض اپنا لختِ جگر اقبال فیکٹری مالک کے حوالے کرنا پڑا..
اتنی چھوٹی سی عمر سے ہی اقبال مسیح زندگی کی بدصورتی سے نبزد آزما ہو گیا...
فیکٹری مالک صرف ایک وقت کا کھانا دیتا تھا اور پورا ھفتہ روزانہ 14گھنٹے کام کرواتا تھا...
بغاوت نے اقبال کے ذہن میں گھر کرنا شروع کر r سو وہ 1990 میں غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا...لیکن چونکہ فیکٹری مالک اثررسوخ والا تھا سو پولیس کو رشوت دے کر جلد ہی اُسے گرفتار کر لیا گیا...
کچھ دن قید میں پولیس کے ہاتھوں ٹاڑچر کروانے کے بعد اُسے دوبارہ فیکٹری میں کام کے لیے قید کردیا گیا...

اقبال مسیح ایک مرتبہ دوبارہ فرار ہوا اور اِس مرتبہ اُس نے اپنے ساتھ لاہور کے تین ہزار بچوں کو بھی سرمایہ داروں کے پنجوں سے آزادی دلوائی....
اقبال مسیخ نے 10 سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی ...جی ہاں ایک پارٹی جس کا نام bonded child libration تھا...

اقبال ایک لیڈر بن چکا تھا ...ایک دس سالہ لیڈر جس نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں ...بھٹوں ...سے ہزاروں بچوں کو آزاد کروایا۔.
لیکن اِس ننھے ہیرو کو 1995 میں ایسٹر کے موقعے پر گولیوں سے بھون دیا گیا...
اقبال مسیح کو پوری دنیا میں اعزازات سے نوازا گیا ...کینیڈا میں آج بھی اقبال مسیح کے نام سے چلڈرن رائٹس فنڈ اشو ہوتا ہے...
1994 میں ریبوک چائلڈ ہیرو کا ایوارڈ بھی اقبال کہ حصے میں آیا....

لیکن اپنے مُلک سے اقبال کو صرف اور صرف گولیاں مِلیں جو اسکے وجود کو چھلنی کر گئیں۔...سچ سچ بتائیے آپ میں سے کتنے لوگوں نے اقبال مسیح کا نام تک بھی پہلے سنا تھا؟...نہیں نہ کیونکہ اقبال آواز ہے جدوجہد کی ...سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی....
اور یہ میڈیا ...یہ اخبارات کبھی بھی اقبال کے بارے میں نہیں بولے اور نہ ہی بولے گے ...کیونکہ یہ سب سرمایہ داروں کی کمپنیز ہیں....پارلیمنٹ سے لیکر عدلیہ سے ہوتے ہوے....بیروکریسی کے دروازوں سے نکل کر میڈیا کے دفتروں تک....ہر جگہ سرمایہ دار بیٹھا ہے....

امارات میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئے پی آئی آئی کی پہلی پرواز نے دبئی سے اسلام آباد کیلئے اڑان بھر لی

قومی ائیرلائن کی پرواز 227 مسافروں کو لے کر کچھ دیر میں وفاقی دارالحکومت کے ائیرپورٹ پر اترے گی، امارات اور پاکستان کے درمیان مزید پروازیں چلانے کا نیا شیڈول جلد جاری کیا جائے گا  18 اپریل 2020..

امارات میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئے پی آئی آئی کی پہلی پرواز نے دبئی سے اسلام آباد کیلئے اڑان بھر لی، قومی ائیرلائن کی پرواز 227 مسافروں کو لے کر کچھ دیر میں وفاقی دارالحکومت کے ائیرپورٹ پر اترے گی، امارات اور پاکستان کے درمیان مزید پروازیں چلانے کا نیا شیڈول جلد جاری کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق دبئی میں پاکستانی قونصل خانے کی جانب سے بتایا گیا متحدہ عرب امارات میں پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے

تایا گیا ہے کہ امارات میں پھنسے 227 پاکستان کو لے کر قومی ائیر لائن کی پرواز نے ہفتے کی شام 7 بجے دبئی ائیرپورٹ سے اڑان بھری
پی آئی اے کی پرواز ہفتے کی شب کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر لینڈ کرے گی
اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پہلے امارات اور پاکستان کے درمیان 11 خصوصی پروازیں چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم اب یہ شیڈول کینسل کر دیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان خصوصی پروازوں کا نیا شیڈول جلد جاری کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بھی کہا ہے کہ بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو جلد واپس لانا چاہتے ہیں، اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنا ہماری ترجیح ہے۔
ہمارے جتنے بھی اوورسیز پاکستانی ہیں جنہوں نے واپس آنا تھا لیکن ابھی تک واپس نہیں آسکے۔ہم ان واپسی کیلئے تیاری کررہے تھے کہ ہمارے شہروں میں قرنطینہ اور ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھ جائے، اور ہم سب پاکستانیوں کومحفو ظ طریقے سے واپس لاسکیں۔معید یوسف کا کہنا ہے کہ اب ہمارے پاس صلاحیت ہے کہ ہم 2 ہزار پاکستانی واپس لارہے ہیں۔ لیکن کل 19اپریل سے ہم ہفتہ وار6 ہزار پاکستانیوں کو واپس لاسکیں گے
ہم نے پاکستانیوں کی واپسی کی تین گنا ایک ہفتے بعد صلاحیت بڑھا دی ہے۔اس سے اگلے ہفتے ہم پاکستانیوں کی واپسی کی تعداد7 ہزار سے زیادہ کردیں گے۔ دنیا کے وہ خطے جہاں پی آئی اے کی رسائی نہیں تھی جیسے آسٹریلیا میں پاکستانی ہیں۔وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جن کے ویزے ایکسپائر ہوگئے ، اسٹوڈنٹ ویزے پر گئے ہوئے تھے، اب ہم آسٹریلیا اور ملائیشیاء سے پاکستانیوں کو واپس لار ہے ہیں۔اس ہفتے سے ہم کمرشل ایئرلائن کو بھی اجازت دیں گے ، کہ وہ پاکستانیوں کو واپس لاسکیں گی، پاکستانی خود اپنی ٹکٹ لے کر واپس آسکیں گے۔معید یوسف نے بتایا ہے کہ کہ ہم نے پاکستانیوں کی واپسی کیلئے ایک کووڈ19ویب سائٹ بنائی ہے جس پر پاکستانیوں کی واپسی کے تمام چیزیں دستیاب ہوں گی

Dr Mirza condemns social media campaign against judiciary. promises to ,do all, to serve the people, 




government's response to the ongoing coronavirus crisis, Special Assistant to the Prime Minister (SAPM) on Health Dr Zafar Mirza on Sunday said that he holds ,all the judges of the SC in the highest esteem.
In a three-part tweet, Dr Mirza said that he "strongly condemn(ed) the recent social media campaign against the judiciary" and promised to do all he could to "assist the honourable court [and] shall continue to work to serve the people to the best of my ability.
I have the highest respect and regard for the Hon’ble Chief Justice of Pakistan i.e. Justice Gulzar Ahmed, who is well known for his integrity, competence & patriotism & I hold all the Judges of the SC in the highest esteem," the SAPM said
At the same time, Mirza insisted that Pakistan's response to the current health crisis is "amongst the best responses in the world from both disease control and social mitigation perspectives".
"Let's continue to keep it this way," he said.
Mirza's tweets come days after it was reported that the prime minister had chided the SAPM for his “irresponsible” attitude during his recent appearance before the Supreme Court.
Sources had told Dawn that Prime Minister Imran Khan had taken serious note of Mirza’s “non-serious” attitude and assailed him for not presenting the untiring efforts of the government to control the pandemic in the country properly.
A source said the prime minister was of the view that the special assistant was duty-bound to present the government’s achievements in the fight against coronavirus in an “effective” and “humble” manner. The prime minister observed that the SAPM, during his recent appearance before the Supreme Court, had failed to give satisfactory replies to the court’s queries.
Later, a notice issued by the Prime Minister Office had stated that PM Imran had taken a very serious view of “the recent campaign on social media in which uncalled, immoderate and intemperate language has been used against the superior judiciary of Pakistan, including the chief justice”.
The Supreme Court had taken suo motu notice regarding the government's response to the Covid-19 pandemic, a hearing of which was held last week. The top court expressed displeasure over the lack of uniformity between the federal and Sindh governments in tackling the challenge.
At one point during the hearing, the bench had come close to issuing a directive for Mirza's removal from his current post but avoided dictating it when Attorney General Khalid Jawed Khan pleaded that such an extreme order at this juncture would prove to be the death knell.
The court had raised questions over Mirza's eligibility to do the job and at one point, Chief Justice of Pakistan Gulzar Ahmed said: "We are not even sure whether Dr Mirza is clean or not

Tuesday, 14 April 2020

آج 15 اپریل کو ٹائیٹینک کی برسی ہے ۔۔۔!!!

آج 15 اپریل کو ٹائیٹینک کی برسی ہے ۔۔۔!!! 

1912 تک ٹائی ٹینک  انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی سب سے  بڑی مشین تھی جو حرکت کرسکتی تھی ۔
"The biggest manmade moving object"

یہ ایک مکمل تعیش گاہ تھی جس پر جمنازیم سوئمنگ پول ترکش باتھ سکواش کورٹ حتیٰ کہ اپنا پرنٹنگ پریس تک موجود تھا جہاں ٹائی ٹینک کا اپنا ایک روزنامہ شائع ہوتا تھا  20000 بئیر کی بوتلیں، 1500 وائن کی بوتلیں اور 8000 سگار موجود تھے ۔ جہاز پر روزانہ 600 ٹن کوئلہ جلایا جاتا تھا ۔ بھٹی میں کوئلہ ڈالنے کیلیے 176 افراد مامور تھے اور روزانہ 100 ٹن راکھ سمندر میں بہائی جاتی تھی ۔جب ٹائی ٹینک تیار ہوا تو اس کو کھینچ کر ساحل پر لانے کیلیے 20 طاقتور ترین گھوڑے لائے گئے اور 22 ٹن صابن اور گوشت کی چکنائی بچھائی گئی جس پر اسے گھسیٹا گیا ۔




یہ تھا ٹائی ٹینک ۔۔۔!!!
انسانی عظمت کا استعارہ ۔۔۔!!!
آدم کےبیٹے کی ذہانت، مہارت اورمحنت کا شاہکار ۔۔ !!!
دولت اور ٹیکنالوجی کی علامت ۔۔۔ !!!
عروج کا نشان ۔۔۔ ترقی کی معراج ۔۔۔ !!!

ٹائی ٹینک  کےبنانے والے حضرت انسان اپنی اس تخلیق پر نازاں، اور اس کی کی کامیابی کے بارے میں اس قدر پر اعتماد تھے کہ جب اس کی رونمائی کی تقریب کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ اتنے بڑے جہاز پر جس میں دنیا جہان کے لوازمات موجود ہیں لیکن  لائف بوٹس بہت کم رکھی گئی ہیں اگر حادثہ ہوا تو مسافر کیا کریں گے ؟ 
واضح رہے کہ ٹائی ٹینک پر لائف بوٹس صرف 16 رکھی گئی تھیں جن پر صرف 1178 افراد سما سکتے تھے  جبکہ مسافروں کی تعداد 2224 تھی ۔

اس سوال پر ایک آفیسر نے رعونت اور حقارت سے جواب دیا 

ٹائی ٹینک کو خدا بھی نہیں ڈبوسکتا ۔۔۔ !!! 

یہ انسان کی طرف سے  اللہ کی کبریائی کو چیلنج تھا اور یہ چیلنج اس طرح منہ پر مارا گیا کہ اپنی روانگی کے چھٹے ہی دن ٹائی ٹینک ایک عظیم الجثہ برف کے تودے سے جاٹکرایا اور انسانی طاقت ،عظمت ، ترقی اور عروج کا یہ جنازہ اپنے سارے کرو فر اور سارے تام جھام کے ساتھ صرف 4 گھنٹے میں دیکھتے ہی دیکھتے سمندر برد ہوگیا ۔

بعد میں سینیٹ کی تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو بیانات سے انکشاف ہوا کہ جہاز پر دوربین دستیاب نہ تھی کپتان کی دوربین ایک لاکر میں مقفل تھی جس کی چابی بدقسمتی سے ساحل پر ہی رہ گئی تھی اور دوربین نہ ہونےکی وجہ سے سامنے موجود برفانی تودہ نظر نہ آیا اور جب تک وہ تودہ نظر آتا دیر ہوچکی تھی اور جہاز کو موڑنا ممکن نہ تھا ۔
اللہ اکبر ۔۔۔ !!! 

بے شک جب اللہ کا جلال حرکت میں آتا ہے تو وہ ذرائع کیلیے مجبور نہیں ہوتا وہ چاہے تو ابابیلوں کے ہاتھوں ابرہہ کی اس کے ہاتھیوں سمیت درگت بنوا دیتا ہے مچھر سے نمرود کو عبرت کا نشان بنا دیتا ہے 

آج 15 اپریل 2020 میں جب 3 ارب انسان اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ان کیلیے 15 اپریل 1912 کو تباہ ہونے والے  ٹائی ٹینک کی  تباہی میں بہت سارے سبق موجود ہیں ۔
ہیں کوئی جو سبق حاصل کرے ؟ 

اول و آخر فناء 
باطن و ظاہر فناء 
نقش کہن ہو کہ نو
منزل آخر فناء

طارق رحمان

فیس ماسک کے استعمال کا مذاق اڑانے والا مشہور ٹک ٹاک اسٹار خود بھی کرونا وائرس کا شکار بن گیا

فیس ماسک کے استعمال کا مذاق اڑانے والا مشہور ٹک ٹاک اسٹار خود بھی کرونا وائرس کا شکار بن گیا...

بھارتی ریاست مدھیا پردیش سے تعلق رکھنے والا نوجوان اسٹار سمیر اپنے ضلع میں وائرس کا شکار ہونے والے پہلا شخص ہے، پولیس نے موبائل فون قبضے میں لے لیا


فیس ماسک کے استعمال کا مذاق اڑانے والا مشہور ٹک ٹاک اسٹار خود بھی کرونا وائرس کا شکار بن گیا، بھارتی ریاست مدھیا پردیش سے تعلق رکھنے والا نوجوان اسٹار سمیر اپنے ضلع میں وائرس کا شکار ہونے والے پہلا شخص ہے، پولیس نے موبائل فون قبضے میں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی وبا خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔
اب تک دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ دنیا میں کرونا وائرس کے باعث سوا لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہو چکے، جبکہ 20 لاکھ کے قریب متاثر ہوئے ہیں۔ اسی باعث دنیا کے بیشتر ممالک اس وقت لاک ڈاون کی حالت میں ہیں، ہر جانب خوف کی فضاء ہے۔ تاہم ان حالات میں بھی کچھ لوگ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔
بھارت کی ریاست مدھیا پردیش سے تعلق رکھنے والا مشہور ٹک ٹاک اسٹار سمیر بھی ایسے ہی غیر سنجیدہ لوگوں میں شامل ہے۔ سمیر نے کچھ روز قبل ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جس میں اس کی جانب سے فیس ماسک کے استعمال کا مذاق بنایا گیا تھا۔ تاہم اب بتایا گیا ہے کہ سمیر خود بھی کرونا وائرس کا شکار ہو گیا۔ سمیر اس وقت ایک ہسپتال میں داخل ہے، جبکہ پولیس نے ٹک ٹاک اسٹار کو موبائل فون قبضے میں لے لیا ہے۔
سمیر اپنے ضلع میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والا واحد شخص ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد بھی سمیر نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کیا، ویڈیو بنا کر لوگوں سے اس کی صحتیابی کی دعا کی اپیل کی جبکہ دیگر ٹک ٹاک ویڈیوز بھی بناتا رہا، جس کے بعد پولیس نے فوری حرکت میں آتے ہوئے ہسپتال پہنچ کر ٹک ٹاک اسٹار سے موبائل فون لے لیا۔ پولیس کے مطابق کرونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کو ہسپتالوں میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے

حکومت کا 20 اپریل سے تمام سرکاری ملازمین کی چھٹیاں ختم کرنے کا فیصلہ

حکومت کا 20 اپریل سے تمام سرکاری ملازمین کی چھٹیاں ختم کرنے کا فیصلہ


حکومت نے 20 اپریل سے تمام سرکاری ملازمین کی چھٹیاں ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں حاضر ہونے کی ہدایت کی ہے ذرائع کے مطابق تمام محکموں کے افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ ملازمین کو 20 اپریل کو اپنے دفاتر میں حاضر ہونے کی ہدایت کریں تاکہ معمولات زندگی کو رفتہ رفتہ بحال کیا جاسکے اور بین الاقوامی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے دفاتر میں حفاظتی اقدامات ہر صورت یقینی بنائے جائیں ذرائع کے کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں باقاعدہ طور پر مراسلہ جاری کردیا گیا جائیگا تمام محکموں کے سیکرٹریز کو کہا جائیگا کہ وہ ملازمین کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کریں ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مراسلہ جاری ہوگیا تو 20 اپریل دفاتر میں ملازمین کی حاضری یقینی بنائی جائیگیسے

امریکہ میں کورونا وائرس سے ایک دن میں 2 ہزار 228 ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ

اس سے قبل 11 اپریل کو امریکہ میں ایک ہی دن میں 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں,,


 امریکہ میں کورونا وائرس سے ایک دن میں 2 ہزار 228 ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ۔ اس سے قبل 11 اپریل کو امریکہ میں ایک ہی دن میں 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ تفصیلات کے مطابق امریکہ میں گزشتہ ویس گھنٹوں میں 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 2 ہزار 228 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں جو کہ کورونا کے باعث کسی بھی ملک میں ایک ہی دن میں ریکارڈ کی جانے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
کورونا کے نئے کیسز اور اموات سے متعلق معلومات فراہم کرنے والے عالمی میٹر کے مطابق امریکہ میں گزشتہ روز کورونا کے کیسز کی تعداد 5 لاکھ 86 ہزار سے زائد ریکارڈ کی گئی تھی جو کہ اب بڑھ کر 6 لاکھ 13 ہزار سے 
زائد ہو چکی ہے

اس حساب سے امریکہ میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں ریکارڈ کیے جانے والے کورونا کے کیسز تقریباََ 27 ہزار بنتے ہیں

فیورٹ پوسٹ

کیو فار قرآن: روزانہ قرآن پڑھنے کی عادت اپنائی کیو فار قرآن ایک ایسی ایپلیکیشن ہے جو کہ لوگوں میں قرآن پڑھنے کی عادت کو اپنانے کےل...